مدارس اسلامیہ کا تاریخی پس منظر
ملکِ عزیز پاکستان میں علوم دینیہ کے ہزاروں چھوٹے بڑے مراکز شب و روز ملتِ اسلامیہ کی دینی رہنمائی اور علوم نبوت کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔ یہ فیض ہے دارالعلوم دیوبند کے حضرت مولانا رشیداحمدگنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے رفقاء کاجو انگریز کے خلاف میدان جہاد میں بنفس نفیس شریک رہے۔
انگریز نے ایسا نظام رائج کرنے کی ٹھانی تھی جو مسلمانوں کے دل پر مغربی افکارکاسکہ جمادےاور جس کے نتیجے میں ایسا طبقہ وجود میں لانا تھا جو رنگ ونسل کے اعتبارسے ہندوستانی اور مسلمان ہو مگر قلب ودماغ کے لحاظ سے مکمل انگریز ہو۔ایسے طوفانی اور ہمہ گیر فتنہ کے سامنے مضبوط بند باندھنے اور توانا حصار کھینچنےکے لئےان علمائے ربانیین نے ‘‘دارالعلوم دیوبند’’کی بنیاد رکھی اور ایسے سرفروش علماء کی ایک بڑی جماعت تیارکی جو مسلمانوں کے ایمان واسلام اور علوم دین کے ہر ہر گوشہ کو وقت کی خطرناک آندھی اور طوفان سے بچاکر محفوظ کرتی رہی اور ان کی تعلیم وتبلیغ سے برصغیر کاچپہ چپہ سیراب ہوا۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن رحمتہ اللہ کی قیادت میں انہی علماء کی بے مثال قربانیوں اورلازوال جدوجہد نے ہندوستان کو انگریز کی غلامی سے نجات دلانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کی ترغیب پر،شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانی ،شیخ الحدیث حضرت مولاناظفراحمد عثمانی، اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہم اللہ نے قیام پاکستان کے لیےجو تاریخ ساز اور انتھک جدوجہد فرمائی تھی وہ بھی اسی دارالعلوم دیوبند کا فیضان ہے۔
قیام پاکستان کے بعد لازم تھا کہ سب سے پہلے ایک اسلامی حکومت کے شایان شان ایسا نظام تعلیم رائج کیا جاتا جس میں قرآن و سنت کی مکمل تعلیم اور جدید علوم وفنون کو لادینی جراثیم سے پاک کرکےعوام الناس کے سامنے پیش کیاجاتا۔ اس طرح ہر مسلمان دینی علوم سے بھی آراستہ ہوتا اور دنیوی فنون میں بھی ماہر یا کم ازکم دونوں قسموں سے بقدر ضرورت آشنا ہوتا۔
مگرافسوس کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں بے دین جماعتوں کے درمیان اقتدارکی رسہ کشی ہورہی ہے اور اسلامی اقدار سے کنارہ کشی اختیار کی جارہی ہے جس پرہردردمند مسلمان دل گرفتہ ونالاں ہے۔ اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی اس مملکت کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دی جانے والی تعلیم آج تک انگریز ملعون کی ڈالی گئی داغ بیل پر ہی جاری ہے ،جہاں دینی تعلیم وتربیت کایاتو گزر ہی نہیں،یا محض برائے نام،ایسی صورت حال میں اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ دین کی حفاظت کے لیے علماء و عوام پاکستان میں دار العلوم دیوبند کی طرزکے اسلامی مدارس وجامعات کے قیام کاسلسلہ جاری رکھتےچنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں چھوٹے بڑے مکاتب و مدارس اور جامعات قائم کئے اور یہ ان ہی کے ثمرات و برکات ہیں کہ آج اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک کی نسبت پاکستانی عوام کےدینی رجحانات اور بودوباش بہت بہتر ہیں۔
تاہم اس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ دینی مدارس میں بھی بقدر ضرورت دنیوی علوم وفنون کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے چنانچہ مدارس دینیہ کی سب سے بڑی تنظیم ‘‘وفاق المدارس العربیہ پاکستان ’’ نے بھی اپنے قدیم نصاب کو عمومی حیثیت سے برقرار رکھتے ہوئے ابتدائی درجات میں میٹرک تک کی عصری تعلیم کو لازمی قرار دیا اور ملک کی مشہور ومعروف دینی درسگاہ دار العلوم کراچی نے درس نظامی کے آٹھ سالہ نصاب کے پہلے سال ‘‘درجہ اولی’’میں داخلہ کے لیے میٹرک کو لازمی قرار دیا ۔
ادارہ معارف القرآن گلزار ہجری کراچی اسی طرز کا ایک دینی ادارہ ہے جس میں فی الحال درس نظامی کے ساتھ ساتھ میٹرک تک کی عصری تعلیم کا انتظام بھی کیا گیا ہے ، جس کے لیے ادارہ نے مستقل انگلش میڈیم رجسٹرڈ اسکول قائم کیا ہے ۔
قیام و تاسیس
ادارہ معارف القرآن بھی ملک عزیز پاکستان کے دیگر مدارس دینیہ کی طرح ایک منفرد دینی تعلیمی ادارہ ہے جہاں حفظ قرآن مجید ،درس نظامی اور علوم عصریہ کی اعلی،مستند اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ ادارے نے اپنے نظام تعلیم کی تینوں جہتوں پر نہایت ہی جانفشانی، عرق ریزی اور اہل فن کی مشاورت سے کام کرتے ہوئے ہرہر شعبےمیں امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ اہلِ محلہ اور عوام الناس (خواتین و حضرات) کے لیے ضروری دینی تعلیم اور ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم کا بھی نہایت معیاری انتظام کیا ہے۔
افتتاح
ادارے میں تعلیم کا افتتاح وکیل ختم نبوت،فقیہ امت حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا۔ ابتداء میں تعلیم کا آغاز جامع مسجدآمنہ سے کیاگیا ،پھر جامع مسجد آمنہ کے بانی جناب مبین الحق صدیقی مرحوم کے صاحبزادگان نے مسجد کے ساتھ متصل پلاٹ مدرسہ کے لیے وقف کرنے کی سعادت حاصل کی ،اس پلاٹ پر تعمیر کا افتتاح استاد المحدثین شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نوراللہ مرقدہ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اپنے دست مبارک سے ۳۱/دسمبر۱۹۹۲ء کو کیا۔
محسن مدارس حضرت مولانایوسف کشمیری صاحب مدظلہ مہتمم جامعہ امام ابوحنیفہ نے روزاول سے ہی بھرپورسرپرستی فرمائی آپ مختلف اوقات میں ادارے میں تشریف لاتے رہےاورمفیدوقیمتی مشوروں سے مستفید فرماتے رہے۔ ادارہ کے قیام اور تعمیر کے سلسلےمیں ادارہ کی انتظامیہ خصوصاً جناب رفیق الدین خان صاحب اورجناب سیدمحمدابوافتخارصاحب نے انتہائی خلوص اور محنت سے بھرپور تعاون کیا۔